اذان و اقامت

 اذان و اقامت (اذان کے معنی اور مشروعیت )

historyfinder.net

اذان کے لغوی معنی ہیں ، خبر دار کرنا،  اطلاع دینا اور اعلان  کرنا ۔ شریعت کی اصطلاح میں اذان سے مراد وہ محسوس کلمات ہیں ہیں جن کے ذریعے لوگوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے ۔
مدینہ طیبہ میں جب نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد بنائی گئی تو اس چیز کی ضرورت محسوس ہوئی کہ جماعت کا وقت قریب ہونے کی لوگوں کو عام اطلاع  دینے کا کوئی خاص طریقہ اختیار کیا جائے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں میں صحابہ کرام علیہم السلام سے  مشورہ فرمایا ۔ یہ سلسلے میں چار تجاویز سامنے آئیں : 
۱ : نماز کے وقت بطور علامات کوئی خاص جھنڈا بلند کیا جائے ۔ 
۲ : کسی بلند جگہ آگ روشن کر دی جایا کرے ۔ 
۳ : یہودیوں کی طرح سینگ بجایا جائے ۔ 
۴ : عسائیوں کی طرح ناقوس بجایا جائے ۔ 
لیکن رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا ، غیر مسلم اقوام کے تشبیہ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام چیزوں کو ناپسند فرمایا ۔ اس مسئلے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام متفکر رہے ۔ اسی رات ایک انصاری صحابی حضرت عبداللہ بن زید نے خواب دیکھا ۔ خواب میں انھیں کسی شخص نے اذان اور اقامت کے کلمات سیکھاے ، انہوں نے صبح سویرے ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر خواب کا پورا قصہ بیان کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پسند فرمایا اور اس خواب کو اللہ کی جانب سے سچا خواب قرار دیا ۔ اسی قسم کے خواب بعض دوسرے صحابہ نے بھی دیکھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ  وحی بھی اللّٰہ تعالٰی نے اذان کی تعلیم دے دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ  سے فرمایا تم بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو اذان کے ان کلمات کی تلقین کردو ۔ ان کی آواز بلند ہے ۔ وہ ہر نماز کے لیے اسی طرح اذان دیا کریں ۔ چناچہ اسی دن سے اذان کا یہ نظام قائم ہے ۔  
اذان کا ذکر قرآن مجید میں بھی ان الفاظ سے آیا ہے : 
1 : اِذَا نُوْدِیَ لَلصًّلٰوۃِ مِنْ یًّومِ الْجُمُعَتہِ فَاسْعَوْااِلیٰ ذِکْرِ اللّٰہ ۔ 
ترجمہ : جب جمعہ کے دن نماز کی اذان ہو تو اللہ کی یاد کی طرف جلدی جلدی چلو ۔ 
2 : وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوھَا ھُزُواً وَّلَعِباً ۔
ترجمہ : جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو تو یہ اسے ہنسی اور مذاق بناتے ہیں ۔ 

بیان مسائل : 

مسئلہ (۱) :
پانچوں فرض نمازوں اور جمعہ کی نماز کے لیے اذان کہنا سنت مؤکدہ ہے ۔ ان کے علاوہ کسی اور نماز مثلاََ نماز عیدین ، نماز استسقاء ، نماز کسوف اور دوسری نمازوں کے لیے اذان مشروع نہیں ہے ۔ 
مسئلہ (۲) : 
فجر کی اذان میں ” حَیَّ عَلَی الْفَلَاَح ” کے بعد دو مرتبہ ” الَصَّلَوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوم ” کہنا چاہیے ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ سو رہے تھے تو حضرت بلال ؓ نے ” الَصَّلَوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوم ” ( نماز نیند سے بہتر ہے ) کے کلمات کہے ۔ آپ ﷺ نے ان الفاظ کو بہت پسند فرمایا اور حکم دیا کہ ان کلمات کو فجر کی اذان میں رکھ دیا جائے ۔ 
مسئلہ (۳) : 
اقامت میں بھی اذان والے کلمات کہے جاتے ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اقامت میں ” حَیَّ عَلَی الْفَلَاَح  ” کے بعد دو مرتبہ “قَدْقَامَتِ الصَّلٰوۃ” ( تحقیق نماز کھڑی ہوگئی ) کہا جاتا ہے ۔ جب کہ اذان میں یہ الفاظ نہیں ہیں ۔
مسئلہ (۴) : 
اذان ٹھہر ٹھہر کر کہی جائے ۔ یعنی اذان کے الفاظ ادا کرنے میں جلدی نہ کی جائے ، بلکہ آہستہ ادا کیے جائیں ۔ اور ہر کلمہ کے بعد موذن اتنی دیر خاموش رہے کہ سننے والا وہی کلمات دہرا کر جواب دے سکیں ۔ جبکہ اقامت جلدی جلدی اور روانی سے کہنی چاہیے ۔ 
حضور ﷺ نے اپنے موذن بلال ؓ سے فرمایا : 
” جب تم اذان دو تو آہستہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر دیا کرو اور جب اقامت کہوں تو روانی سے کہا کرو اور اپنی اذان اور اقامت کے درمیان اتنا توقف کیا کرو کہ جو شخص کھانے پینے میں مشغول ہے وہ فارغ ہوجائے ، اور جو رفع حاجت کے لیے گیا ہے وہ اپنی ضرورت سے فارغ ہوجائے ، اور نماز کے لیے اس وقت تک کھڑے نہ ہوا کرو جب تک مجھے نماز کے لیے آتے ہوئے دیکھ نہ لو ” ۔ 
مسئلہ (۵) : 
اذان اور اقامت کہتے وقت قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونا چاہیے ۔ موذن ” حَیَّ عَلَی الصَلَوۃِ ” کہتے وقت منہ دائیں طرف پھیرے ۔ اور ” حَیَّ عَلَی الْفَلَاَح ” کہتے وقت بائیں طرف منہ پھیرے ۔ سینہ اور پیر قبلہ کی طرف رہیں ۔ اذان دیتے وقت شہادت کی انگلیاں کانوں میں دے کر اپنی طاقت کے موافق بلند آواز سے اذان کہے ۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو حکم دیا کہ اذان دیتے وقت وہ اپنی انگلیاں کانوں میں دے لیا کریں ۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ : 
      ” ایسا کرنے سے تمہاری آواز زیادہ بلند ہوجائے گی ” ۔ 
مسئلہ (۶) : 
اذان اور اقامت کہتے وقت باوضو ہونا چاہیے ۔ تاہم اگر بلا وضو اذان کہہ لی جائے تو جائز ہے ، کیوں کہ اذان نماز نہیں بلکہ ذکر ہے ۔ جس طرح وضو کے بغیر زبانی تلاوت کلام الله جائز ہے ، اذان بھی جائز ہے ۔ البتہ بغیر وضو کے اقامتِ کہنا مکروہ ہے ، کیوں کہ اقامت نماز سے متضل پہلے کہی جاتی ہے ۔ اگر ایک شخص بغیر وضو کے اقامت کہے گا تو اقامت کہنے کے بجائے نماز پڑھنے کے لیے وہ وضو کرنے کے لیے چلا جائے گا ۔ اس طرح اقامت اور نماز میں اتصال باقی نہیں رہے گا ۔ 
حالت جنابت ( ناپاکی کی حالت ) میں اذان کہنا مکروہ ہے ۔ کیوں کہ اذان نماز ہی کے مشابہ ایک عبادت ہے ۔ اگرچہ اس کے لیے مکمل طہارت ضروری نہیں ، تاہم جنابت سے پاک ہونا ضروری ہے ۔ 
 
Raja Arslan

Leave a Comment