حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ

 حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ

  نام و نسب :

عامر بن عبد اللہ بن الجراح بن بلال بن اہیب بن عتبہ بن الحارث بن فہر بن مالک بن النفر بن کنانہ بن خزیمہ امین الامتہ آپکے لقب ہیں .

آپ کی والدہ کا نام امیمہ بنت غنم بن جابر تھا جو قبیلہ بنی حارث سے تعلق رکھتی تھی . آپ کے والد کا نام عبداللہ تھا , جو کہ بحالت کفر  میں اور بدر میں آپ ہی کے ہاتھوں و مقتول ہوئے , جبکہ آپ کی والدہ مسلمان ہو گئی ان کا شمار صحابیات میں ہوتا تھا .

آپ آٹھ شخصوں کے بعد اسلام لائے , آپ سے پہلے حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے اسلام قبول کیا تھا , اور آپ کا شمار ان صحابہ میں ہوتا تھا جو اپنی کنیت سے مشہور ہوئے اور آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں آپ کے لقب امین الامۃ کا ذکر بخاری شریف میں موجود ہے آپ نے عثمان بن مظعون عبدالرحمن بن عوف اور ان کے رفقاء کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا . آپ نے مکہ مکرمہ میں وہ سب اذیتیں برداشت کی جو کفار نے آپ کو اسلام قبول کرنے پر پہنچائیں . آپ نے مدینہ منورہ ہجرت کی تو حضرت کلثوم بن ہدم کے یہاں قیام کیا , آپ کا رشتہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ سے جوڑا گیا اور اسلام کا یہی جذبہ تھا جو غزوہ احد میں بھی پوری شان کے ساتھ نمایاں ہوا جس میں آپ کے پائے استقلال کو مطلق جنبش نہیں ہوئی . ربیع الثانی 6ھ میں آپ کو قبیلہ ثعلبہ و انمار کی سرکوبی پر مامور کیا گیا. یہ لوگ اطراف مدینہ میں غارت گری کیا کرتے تھے . آپ نے ان کے مرکزی مقام ذی القصہ پر چھاپہ مارا , جس سے غارتگروں کا  یہ گروہ پہاڑوں پر چلا گیا , اور ایک شخص گرفتار ہوا, اور اس نے اسلام قبول کر لیا .


بخثیت سپہ سالار خدمات :

حدیبیہ 6ھ کے صلح نامہ میں بھی آپ کے دستخط بطور گواہ شامل تھے , آپ نے ذات السلاسل (7ھ )سیف البحر (رجب 8ھ) اور غزوہ الفتح ( رمضان 8ھ) میں بھی حصہ لیا اس آخری غزوہ میں فوج کے ایک حصے کی سپہ سالار آپ کے سپرد کر دی . نو عیسوی میں جب وفد د نجران یمن واپس گیا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بھی تبلیغ اور صداقت کی وصولی کے لیے اس کے ساتھ روانہ کیا , یہی موقع تھا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا کہ روایات سے ثابت ہے کہ آپ کو امین الامتہ کہا . اسی سال نو عیسوی میں اپنے جزیرے کی وصولی کے لئے بحرین کا سفر کیا , رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر جب انصار نے سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کا سوال اٹھایا , حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ان سے گفتگو کرنے کے لیے تشریف لے گئے آپ بھی ان کے ہمراہ تھے یہی سقیفہ میں تقریر کرتے ہوئے حضرت ابوبکر نے فرمایا تھا :

تم لوگ عمر بن الخطاب یا ابوعبیدہ میں سے کسی کی بیعت کر لو !


بخاری شریف کتاب الحدود میں بھی یہ روایت موجود ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں…


اور میں تمہارے لیے ان دو شخصوں میں سے کسی ایک کو پسند کرتا ہوں تم ان دونوں میں سے جس سے چاہو بیعت کرلو

پھر انہوں نے حضرت عمر اور ابو عبیدہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور خود بیٹھ گئے .

الیعقوبی جلد 2 دو میں حضرت عبیدہ کی یہ گفتگو بھی معقول ہے کہ جب زیادہ اختلاف پیدا ہوا تو حضرت عبیدہ اٹھے اور انصار سے فرمایا…

 اے گروہ انصار  تم نے سب سے پہلے امداد و اعانت ہاتھ بڑھایا تھا اس لیے تمہیں اختلاف و افتراق کی طرح نہ ڈالو بالآخر جب حضرت ابوبکر کی بیعت پر اجماع ہوا تو حضرت عبیدہ سب سے آگے تھے  .

بارہ 12ھ کے آغاز میں جب حضرت ابوبکر صدیق نے شام پر لشکر کشی کی تو حضرت عبیدہ نے سات ہزار سپاہیوں کے ساتھ معرفتہ کے راستے شام کا رخ کیا . حضرت ابو بکر نے آپ کو حمص کی فتح کے لیے نامزد فرمایا تھا انہوں نے تھوڑی دور تک پیدل انکی مشایعت بھی گئی . حضرت عبیدہ نے یرموک سے گزرتے ہوئے پہلے بصرہ کو محاصرے میں لے لیا پھر ادائیگی جزیہ پر صلح کے بعد دمشق روانہ ہوئے جہاں تمام اسلامی فوجیں جمع ہو رہی تھی , تاکہ قیصر کی جنگی تیاریوں کا مقابلہ کریں , سب سے پہلے اجنادین کا معرکہ پیش آیا جس میں حضرت خالد بن ولید بھی حضرت عبیدہ کے ساتھ شریک ہوئے اور جس میں رومیوں کو ‏ شکست فاش کے بعد 13 ہجری میں اسلامی فوج نے دمشق کا محاصرہ کر لیا محاصرہ جاری ہی تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے وفات پا گئے . اس طرح دمشق حضرت عمر کے دور خلافت میں فتح ہوا  .

اوصاف  :

حضرت ابو عبیدہ کا شمار ان صحابہ میں ہوتا ہے جن کی فطری صلاحیتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض و تربیت سے زیادہ چمک اٹھیں . حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی ذات پر جو اعتماد تھا , اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی طرف کے ابو عبیدہ امین الامت ہے اشارہ کر دینا ہی کافی ہے آپ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دست راست تھے ان کی وجاہت ذات سے بھی انکار کرنا ناممکن ہے چنانچہ یہ کے سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکر نے ان کا نام خلافت کے لئے پیش کیا یہی اس امر کی دلیل ہے , کہ انھوں نے مہاجرین اور انصار میں بڑی قدر و منزلت حاصل کی .

حضرت ابو عبیدہ کا تقوی ان کی سادگی اور زہد شجاعت اور ہمت ایثار اور رحم دلی , خوش اخلاقی اور زندہ دلی , صحابہ کی پوری جماعت میں نمایاں تھی , اللہ تعالی کی اطاعت , رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اتباع سنت میں وہ ہمیشہ پیش پیش  ہے ان کی ذات اسلامی مساوات اور رواداری کی ایک روشن مثال تھی .

فضائل :

آپ کے والد اسلام نہیں لائے تھے , جنگ بدر میں آپ نے ان سے بھی قتال کیا اس واقعے پر اللہ تبارک و تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی …


  ترجمہ :


اللہ اور قیامت پر ایمان رکھنے والوں کو تم کبھی نہ دیکھو گے کہ وہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے محبت رکھتے ہیں اگرچہ وہ ان کے ماں , باپ ہوں یا بیٹا , بیٹی (پارہ 28, رکوع -3) .

غزوہ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک میں ذرہ کے دو حلقے لگ گئے تو حضرت ابو عبیدہ نے ان کو اپنے دانتوں میں دبا کر کے کھینچا اور وہ نکل گئے خدا کی قدرت کے دانت نکلنے سے ان کا چہرہ پہلے سے زیادہ خوبصورت معلوم ہوتا تھا .

حضرت سیدنا عمر فاروق نےانہیں حضرت خالد بن ولید کی جگہ عساکر شام کا سپہ سالار مقرر کیا , تو حضرت خالد نے  اس تقرر پر فرمایا تھا کہ لوگو تم پر امت کے امین کو حاکم بنایا گیا ہے .


وعظ و نصیحت :

آپ کبھی وعظ و نصیحت بھی کیا کرتے تھے , شام کے زمانہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا :

 خبردار بہت سے لوگ اپنا لباس کو اجلا رکھتے ہیں مگر اپنا دین میلہ رکھتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنے نفس کو عزیز رکھتے ہیں مگر وہ بھی ذلیل دشمن ہے لوگوں اپنی برائیوں کو نیکیوں سے دور کرو اگر کسی نے زمین و آسمان کے خلا کو بھر دینے والی برائیاں بھی کی ہو گی اور پھر وہ ان کے بعد نیکی کرے گا تو وہ نیکی ان سب پر غالب آجائے گی اور سب گناہوں کو صاف کر دے گی .

 انتقال :

سہہ 18ھ میں اس جہان فانی سے عالم بقاء کی طرف انتقال کر گئے . آپ کو انگلی پرایک چھوٹا سا دانہ نکل آیا لوگوں نے کہا کہ یہ کچھ خطرناک نہیں ہے آپ نے فرمایا کہ کہ میں خیال کرتا ہوں کہ اللہ اسی میں برکت دے گا جس کو دیتا ہے تو تھوڑی سی چیز بھی بہت ہوجاتی ہے . ایک روز نماز کی نیت سے بیت المقدس جا رہے تھے کہ موضع محل پہنچ کر وفات  پائی . 

حلیہ :

آپ کا قد لمبا ‘ بدن نحیف ‘ چہرہ پتلا تھا. (عشرہ مبشرہ)    

Raja Arslan

0 thoughts on “حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ”

Leave a Comment