حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ

 حضرت جریر بن عبداللہ البجلی کی زندگی اور اسلام کی خاطر خدمات (فاتح خانقین ، حلوان ، قرمیسین اور ہمدان)

نام و نسب : 

حضرت جریر بن عبداللہ بن جابر البجلی رضیَ اللہ عنہ کا تعلق یمن سے تھا۔ نو ہجری سنتہ الوفود میں اسلام لائے ۔ 

حلیہ مبارکہ :

 آپ رضیَ اللہ عنہ بےحد خوبصورت تھے ، اسی وجہ سے حضرت عمر فاروق رضیَ اللہ عنہ آپکو ” اُمت محمدیہ کا یوسف ” کہتے تھے ۔ (1 سبل الھدیٰ،ج 6،ص311ماخوذاً، طبقات ابن سعد،ج 1،ص261)

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں 150 سوار دے کر یمن میں ذوالخلصہ کے بت کو پاش پاش کرنے کے لئے بھیجا۔ دور جاہلیت میں اسے یمنی کعبہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ حضرت جریر نے اس بت اور گھر کو جلا خاکستر کر دیا اور صحیح و سالم واپس آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر پر انہیں دعا دی ۔ اور  دو بارہ داعی کی حیثیت سے یمن بھیجا ۔ اس کا بھی خاطر ہوا فائدہ ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غسانی رئیسوں ذوالکلاع  بن ناکور اور ذی  عمر کی طرف بھیجا ۔ انہوں نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور وہ دونوں اسلام لے آئے ، اور ان کے ساتھ ابرہہ کی بیٹی جو ذوالکلاع کی بیوی تھی ، وہ بھی اسلام لے آئی ۔ حضرت جریر رضیَ اللہ عنہ ابھی وہی تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا ، اور یہ مدینہ منورہ واپس آگئے ۔واپس آکر انھوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  کو یمن کے بارے میں سب کچھ بتایا اور اہل یمن میں سے جو لوگ مرتد ہوگئے تھے اُن کے بارے میں بھی بتایا ۔ حضرت ابوبکر رضیَ اللہ عنہ نے انہیں پھر یمن بھیجا کہ قبیلہ بجیلہ  کے جو لوگ اسلام پر قائم و دائم ہیں ان میں رہیں تاکہ انہیں تقویت حاصل ہو اور کمک  کے آنے تک مرتدوں کے لئے ایک روک ثابت ہوں ۔ حضرت جریر رضیَ اللہ عنہ حکم کی تعمیل میں یمن پہنچے ، کچھ لوگ ان کے مقابلے میں آئے انہیں زیر کیا ۔  مرتدوں کے خلاف مدینہ منورہ سے جو آخری لشکر مہاجرین امیہ کے سرکردگی میں یمن پہنچا اس میں شامل ہوگئے ،  حضرت جریر رضیَ اللہ عنہ اس وقت نجران میں تھے ۔ مہاجرین امیہ کی کمان میں مرتدوں کے خلاف خود بھی لڑے ، اور اپنے آدمیوں کو بھی اسکا حکم دیا ۔ حضرت جریر رضیَ اللہ عنہ کی اسلام پر ثابت قدمی کا ان کی قوم پر بڑا اثر ہوا ،  بہت سے تو دوبارہ اسلام میں داخل ہوگئے ، اور کچھ مقابلے میں آئے مگر ہار گئے ۔

ارض شام میں انھیں خالد بن سعید کی قیادت میں جوہر دکھانے کا موقع ملا ، پھر انہیں حضرت خالد بن ولید رضیَ اللہ عنہ کی امداد کے لیے عراق پہنچنے کا حکم ملا ، حکم ملتے ہی روانہ ہوگئے ، اور حیرہ کے مقام پر حضرت خالد بن الولید رضیَ اللہ عنہ سے جا ملے ، حیرہ اس وقت فتح ہوچکا تھا ،   اس لیے وہاں کسی جنگ میں شریک نہ ہوسکے ۔ جب حضرت خالد بن ولید رضیَ اللہ عنہ عراق سے شام کے لیے روانہ ہوگئے ، تو حضرت جریر رضیَ اللہ عنہ بھی ان کے ہمراہ تھے ، راستے میں جتنے بھی معرکے ہوئے ان میں شریک رہے ، جنگ یرموک میں انہوں نے نمایاں حصہ لیا ۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم پر دوبارہ عراق پہنچے ، اور حضرت مثنی بن حارثہ شیبانی رضیَ اللہ عنہ کی کمان میں جنگ بویب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، اس میں آپ اپنی قوم بجیلہ کی کمان کر رہے تھے ، اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی ،  حضرت مثنی رضیَ اللہ عنہ کے حکم پر ایرانیوں کا تعاقب کرنے میں پیش پیش رہے ۔ 

جنگ قادسیہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضیَ اللہ عنہ کی کمان میں اپنے لوگوں کو بڑی دلیری اور بہادری کے ساتھ لڑایا ، جس کا  سب فوج پر خوشگوار اثر ہوا جہاں دشمن کے ہاتھوں جو اسلامی فوج کے لیے ایک ایک مسئلہ بنے ہوئے تھے ان کا تدارک بھی کیا ۔ 

حضرت ہاشم رضیَ اللہ عنہ کی قیادت میں جلولاء کی جنگ میں بھی شامل رہے ۔ اسی طرح آپ نے بہت سے جنگ کے میدان میں حصہ لیا ، اور اسی طرح لڑتے لڑتے آپ خانقین تک جا پہنچے ، اور دشمن کا مقابلہ کیا اور دشمن مقابلے کی تاب نہ لا کر بھاگ نکلے ، حضرت سعد رضیَ اللہ عنہ تین ہزار مجاہدوں کے ساتھ حضرت جریر رضیَ اللہ عنہ کو حلوان بھیجا ، جس کے قریب پہنچے تو یزیدجرد یہاں سے بھاگ کر اصفہان چلا گیا ، حضرت جریر رضیَ اللہ عنہ نے حلوان کو فتح کرلیا ، پھر قرمیسین کا ارادہ کیا ، اور اُسے بھی فتح کر لیا ۔ اور حضرت جریر رضیَ اللہ عنہ حلوان کے گورنر بھی رہے ۔حضرت جریر  رضیَ اللہ عنہ میں بھی رہے ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں قرقیسیا کا حاکم بنا کر بھیجا ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات تک وہی رہے ، انکا وصال ۵۱ ھ میں ہوا ۔

حیثیت انسان :

وہ اسلام سے پہلے بھی اپنی قوم کے سردار تھے ، اور اسلام لانے کے بعد بھی سردار رہے ۔ جب آپ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” جب کسی قوم کے سربراہ تمہارے پاس آئیں تو ان کا احترام کرو ” ۔ ( تہذیب الاسماء،ج 1،ص153 ) ۔  حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ واقعی تم شریف آدمی ہو ۔ آپ پکے مومن تھے۔ آپ بڑے سمجھدار ذہین اور محدث عالم تھے ۔ اُنہوں نے  حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سو حدیثیں روایات کی ہیں۔
انہوں نے اسلام کی سربلندی کے لیۓ قربانیاں دیں ، اور قابل قدر فتوحات حاصل کی ۔ اسلامی تاریخ میں ان کا نام زندہ رہے گا ۔

 

Raja Arslan

Leave a Comment