حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ

شاعر بارگاہ رسالت حضرت سیدنا عبداللہ بن رواحہ 

 : نام و نسب 

عبداللہ بن رواحہ بن ثعلبہ انصار کی شاخ خزرج سے تعلق رکھتے تھے ۔ مدینہ منورہ سے آکر جن بارہ سرکردہ حضرات نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا ان میں ایک حضرت عبداللہ بھی تھے ، پھر دوسرے سال جن 73 انصار کا وفد آیا تھا اور جس نے “عقبہ ثانیہ” کی بیعت کی تھی ان میں بھی حضرت عبداللہ بن رواحہ موجود تھے ۔ ہجرت کے بعد رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر طرح سے نصرت میں پیش پیش رہے ۔ 

 : غزوات میں شرکت 

آپ نے غزوہ بدر ، غزوہ خندق ، غزوہ حدیبیہ اور غزوہ خیبر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں خوب داد شجاعت دی(جامع ترمذی مناقب اہل بیت) . وہ ہر جنگ کے موقع پر یہ دہرایا کرتے تھے ۔ اے نفس ! تو اگر قتل نہ کیا گیا تو آپ اپنی موت مرے گا ۔ مطلب یہ کہ موت آتی ہی ہے اگر شہادت کے ذریعے نہ آئے تو طبی طور پر آئے گی پھر اسے خوف کے کیا معنی ہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب عمرۃ القضاء کا طواف کر رہے تھے تو عبداللہ بن رواحہ ان کے آگے آگے رجز کے یہ اشعار پڑھ رہے تھے ۔ 

اے رب ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے ، نہ تصدیق کرتے نہ عبادت کرتے ۔

ہمارے دلوں پر پر سکینت نازل فرما ؛ دشمنوں کا اگر سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ ۔

ہم پرورش کرنے والے ؛ اگر فتنہ پر آمادہ ہوں تو ہلاک ہو جائیں ۔

غزوہ موتہ کے لیے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لشکر تیار کیا ، اس کی قیادت و سپہ سالاری اپنے آزاد کردہ غلام حضرت بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ کو سونپی اور فرمایا کہ اگر یہ شہید ہو جائے تو حضرت جعفر بن ابی طالب لشکر کی کمان سنبھال لیں اور اگر وہ بھی شہادت کا مقام حاصل کرلیں تو حضرت عبداللہ بن رواحہ یہ سنبھال لے ، اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو پھر لشکر خود اپنا کماندار چن لے اور اس کے حکم پر عمل کرے .8ھ میں موتہ کے مقام پر مسلمانوں کی رومیوں سے بڑی زور دار لڑائی ہوئی ، مسلمانوں کی تعداد تین ہزار اور دشمن کی ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھی مگر اس کے باوجود مسلمان بڑی بے جگری سے لڑے ۔ حضرت زید پر چاروں طرف سے وار ہو رہے تھے بالآخر خون زیادہ بہہ جانے سے وہ گھوڑے سے گر پڑے ، حضرت جعفر بن ابی طالب حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق فوراً آگے بڑھے اور علم تھامتے ہی پیادہ ہوکر لڑنا شروع کر دیا ۔ حضرت جعفر نے لشکر میں نئی روح پھونک دی ، مگر وہ بھی ستر سے زائد زخم کھانے کے بعد شہید ہوگئے ، اب حضرت عبداللہ بن رواحہ رزق پڑھتے ہوئے آگے بڑھے ۔ حضرت عبداللہ کے رجنی فوج کو نیا اعظم عطا کیا بلآخر حضرت عبداللہ بن رواحہ کے آرزو شہادت بھی پوری ہوگی اور وہ بھی بڑی بہادری اور دلیری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ان کی شہادت کے بعد کمان حضرت خالد بن ولید کے حصے میں آئی اور وہ مسلمان فوج کو پیچھے ہٹاتے ہٹاتے بچا کر واپس لے آئے ۔

 : بحثیت شاعر 

حضرت عبداللہ بن رواحہ قادر الکلام شاعر تھے، اور انہوں نے اپنی شاعرانہ صلاحتیں اسلام کے لئے وقف کر دی تھیں ۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جب تم شعر کہنا چاہتے ہو تو کیا کرتے ہو ؟ عرض کیا کہ اس موضوع پر غور و فکر کرتا ہوں پھر شعر زبان پر آنے لگتے ہیں ، اس کے بعد انھوں نے برجستہ چند شعر پڑھے ، ان میں سے تین شعر یہاں نقل کیے جاتے ہیں ۔

 میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی تاڑ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جن کا مجھے علم ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میری نظر میں کوئی غلطی نہیں کی ۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہے جن کی شفاعت سے قیامت کے روز کوئی محروم رہا تو اس کی تقدیر نے اسے تباہ کر دیا ، اس کا مطلب یہ کہ ایک محروم بدقسمت شخص ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم رہے گا ۔

اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان خوبیوں کے ساتھ ثابت قدم رکھے جو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی ہے ۔ جیسے حضرت موسی علیہ السلام کو ثابت قدم رکھا اور جس طرح اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی مدد کی اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری شعر کو پسند فرمایا اور یہ دعا دی : اور اللہ تمہیں بھی ثابت قدم رکھے ۔

اللہ تعالی اس بہادر اور جانباز ، ممتاز شاعر اور صحابی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے درجے اور بڑھاۓ ۔

 

Raja Arslan

0 thoughts on “حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ”

Leave a Comment