حضرت علی کرم وجہہ کی زندگی کا مختصر تعارف


چوتھے خلیفہ راشد علی ابن ابی
طالب 

:  تعارف 

 چوتھے خلیفہ ، امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب عام الفیل کے تیس برس بعد جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت فرمانے سے 10 سال پہلے پیدا ہوئے ۔ ( تاریخ ابن عساکر،ج 41 ص361) حضرت علی چار بھائیوں میں سے سب سے چھوٹے تھے، بہن بھائیوں میں سے حضرت عقیل اور حضرت جعفر ، حضرت ام ہانی اور حضرت جمانہ دولت ایمان سے سرفراز ہوے .

( ریاض النضرہ،ج2،ص104 )

آپکی ولادت13 رجب کو مکہ مکرمہ میں ہوئی ۔ آپ پیغمبر اسلام کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے . آپکے والد محترم کا نام ابوطالب تھا اور آپ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا ۔ آپ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو ہاشم سے تھا ۔ حضرت علی علیہ السلام  ہاشمی خاندان کے وہ پہلے فرد ہے جن کے والدین دونوں ہاشمی ہیں ۔ حضرت علی ؓ  تین سال تک اپنے والدین کے پاس رہے اس کے بعد پھر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے کیونکہ جب آپ تین سال کے تھے تو مکہ میں قحط پڑ گیا تھا جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کو اقتصادی مشکلات کا بہت سامنا کرنا پڑا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے چچا زاد بھائی عباس سے مشورہ کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ہم میں سے ہر ایک چچا ابو طالب کے ایک ایک بچے کی کفالت کرے گا تاکہ ان کی مشکلات کم ہو جائیں ۔ اس طرح حضر ت عباس ؓ نے حضرت جعفر کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کی کفالت کا ذمہ اٹھایا اس طرح حضرت  علی ؓ  پوری طرح سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ آگے۔ اور آپ کی پرورش پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی توجہ سے اپنا پورا وقت اپنے چھوٹے بھائی کی علمی عملی اور اخلاقی تربیت میں صرف کیا ۔

: مکہ کی زندگی 

 قبول اسلام کے بعد حضرت علی ؓ کی زندگی کا تقریباً  13 سال کا عرصہ مکہ میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزرہ ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام قبول کرنے سے پہلے سرزمین مکہ میں مسلمانوں کے لیے اعلانیہ خدا کا نام لینا اور اس کی عبادت کرنا ناممکن تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے چھپ کر اپنے محبوب الٰہی کی عبادت کرتے اور حضرت علی ؓ بھی ان عبادتوں میں آپکے ساتھ شامل رہتے ۔

 :  سلسلہ غزوات  

غزوات میں سب سے پہلی غزوہ جو پیش آئی وہ غزوہ بدر کا معرکہ ہے ، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تین سو تیرہ جانبازوں کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے . جب بدر کے مقام کے قریب پہنچے تو سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کو چند منتخب جانبازوں کےساتھ اطراف کی نقل و حرکت کا پتہ چلانے کے لیے بھیجا۔ انہوں نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ یہ خدمات سرانجام دیں .سترہویں رمضان المبارک جمعہ کے دن جنگ کی ابتدا ہوئی پہلے تنہا مقابلہ ہوا  اور مسلمانوں کی طرف سے تین بہادروں کو بھیجا گیا . اور  انصاریوں کی طرف سے بھی انکے تین بہادر انصاری آہے اور  قریش کے بہادروں کا نام و نسب پوچھا تو یہ معلوم ہوا کہ دو یثرب کے جوان ہیں تو ان کے ساتھ لڑنے سے انکار کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پکار کر کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مقابلے میں ہماری برابری کے آدمی بھیجو , اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے تین بہادروں کو پکارہ جس پر انھوں نے لبیک کہا.  حضرت حمزہ ؓ ، حضرت علی ؓ اور حضرت عبیدہ ؓ اپنے دشمنوں کے لئے میدان میں آئے اور پھر حضرت علی ؓ نے اپنے مخالف ولید کو ایک ہی وار میں ڈھیر کر دیا اس کے بعد پھر عبیدہ کی مدد کی اور ان کے حریف شیبہ کو بھی قتل کر دیا۔ اور مشرکین بوکھلا کر مسلمانوں پر  حملہ کردیا یہ دیکھ کر مجاہدین نے بھی نعرے تکبیر کے ساتھ کفار کے اندر گھس گے اور جنگ شروع ہوگی شیر خدا کفار پر کہر کی طرح ٹوٹ پڑے اور کفار کو قتل کرتے گے اور مشرکین کے پاؤں اکھڑ گے اس طرح مسلمانوں کو غزوہ بدر میں فتح حاصل ہوئی اور پھر کافی مال غنیمت اور تقریبا 70 قیدیوں کے ساتھ مدینہ واپس آگئے مال غنیمت سے آپ کو ایک اونٹ ایک ذرا اور ایک تلوار  ملی ۔ 

: غزوہ احد  

 تین 3ھ میں احد کا معرکہ پیش آیا شوال ہفتے کے دن لڑائی ہوئی اور پہلے مسلمانوں نے قلت تعداد کے باوجود کفار کو بھگا دیا لیکن اکبر کے محافظ تیراندازوں کا اپنی جگہ سے ہٹھنا تھا کہ مشرکین پیچھے سے یکایک ٹوٹ پڑے اس ناگہانی حملے سے مسلمانوں کے اوسان جاتے رہے اسی حالت میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو چشم زخم پہنچا دندان مبارک شہید ہوئے مشرکین آگے بڑھے لیکن حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس جانے سے روکا اور اسی میں لڑتے لڑتے شہید ہوئے اس کے بعد حیدر کرار نے بڑھ کر علم سنبھالا اور  بے جگری کے ساتھ شجاعت دی مشرکین کے سردار ابو سعد بن ابی طلحہ نے مقابلے کے لئے للکارا شیر خدا نے آگے بڑھ کر ایسا ہاتھ مارا کہ فرش خاک پر تڑپنے لگا اور بیہوش ہوگیا تو ایسی حالت میں آپکو اس پر رحم آ گیا اور زندہ چھوڑ کر واپس آگئے۔ مشرکین کا زور کم ہوا تو حضرت علی چند صحابہ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چوٹی پر لے گئے وہاں پر آپکا زخم حضرت فاطمہ نے دھویا اور حضرت علی ؓ بھی پانی بھر بھر کر لاے پر آپ کے دندان مبارک سے خون بند نہ ہوا تو حضرت فاطمہ نے چٹائی جلا کر اس کی راکھ سے زخم بند کیا ۔

….اس طرح آپ نے بہت ساری غزوات میں شرکت کی

بنو نضیر , غزوہ خندق , بنو قریظہ , صلح حدیبیہ , فتح خیبر , مہم مکہ اور غزوہ حنین میں شمولیت کی ۔ 

:  ازواج اور اولاد

 حضرت فاطمہ زہرا کے بعد جناب حضرت علی  ؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں  جن کی تفصیل حسب ذیل ہے 

 حضرت فاطمہ  رضی اللہ تعالی عنہہ 

 رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں ان سے حضرت حسن ؓ  ، حسین ؓ ،  محسن ؓ  اور لڑکیوں میں زینب اور ام کلثوم کبرئ پیدا ہوہیں , حضرت محسن نے بچپن ہی میں وفات پائی۔

  ام البنین بن حزام ،  اسماء بنت عمیس ،  خولہ بنت جعفر ،  محیاہ بنت امرئ القیس ،  امامہ بنت ابی عاص بن ربیع ،  لیلی بنت مسعود ،  ام حبیبہ بنت ربیعہ ،  امی سعید بنت عروہ ثقفیہ ۔ 

 حسن ، حسین ، محسن ، عباس  بلال ، عبداللہ ، جعفر ، عثمان عبید اللہ ، ابوبکر ، محمد بن حنفیہ ، عمر ، محمد بن ابوبکر  زینب ام کلثوم اور رقیہ ہیں ،

:وفات  

  حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ  26 جنوری  661 عیسوی بمطابق 19 رمضان مبارک کو خارجی ابن ملجم  نے  کوفہ کی مسجد میں نماز کے دوران  زہر آلود تلوار کے ساتھ آپ پر قاتلانہ حملہ کیا۔  اس حملے کی وجہ سے آپ شدید زخمی ہوئے ،  اگلے دو دن تک آپ زندہ رہے زخم گہرا تھا چنانچہ آپ جانبر نہ ہو سکے اور 21 رمضان المبارک 40ھ کو  وفات پائی۔ 

Raja Arslan

0 thoughts on “حضرت علی کرم وجہہ کی زندگی کا مختصر تعارف”

Leave a Comment