حضرت عمرو بن العاص ؓ کی زندگی کا مختصر تعارف

  ؓ نامور سپہ سالار حضرت عمرو بن العاص


نام و نسب :

 آپ کا نام عمرو اور والد کا نام عاص تھا ,  آپکا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ سہم سے تھا . آپ کے والد اپنے قبیلے کے سردار تھے اور بڑے تاجر تھے . حجرت سے کوئی 47 برس پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے , آپ نے مکہ مکرمہ میں ہی پرورش پائی اور اپنے والد کے ساتھ تجارت کا پیشہ اختیار کیا اور تجارتی سفر بھی کیے . اسی دوران مختلف قوموں اور ملکوں کے لوگوں سے ملتے جلتے رہے میل جول سے آپ کے تجربہ اور عقل و دانش میں بہت اضافہ ہوا . کاروبار کے لیے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا , آپ نے بچپن ہی سے سپہ گری اور شہ سواری کا فن سیکھا تھا ” انکا کہنا تھا کہ ” سپہ گری اور شہ سواری  میرے آباواجداد کا فن ہے اور میں اسے انسان کا سب سے بڑا جوہر سمجھتا ہوں .

 قبول اسلام :

 شروع میں اسلام اور پیغمبر  رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفوں کی صف میں کھڑے رہے , مکہ فتح سے پہلے آٹھ ہجری میں حضرت عثمان بن ابی طلحہ اور حضرت خالد بن ولید کے ہمراہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا , ان تینوں کے اسلام لانے پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے _ اور فرمایا :

 مکہ والوں نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہاری طرف پھینک دیے ہیں _ 

 رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نے حضرت خالد اور  عمرو بن العاص کی شجاعت بہادری کی وجہ سے بہت سی لڑائیوں میں دوسرے صحابہ کی نسبت ان سے زیادہ کام لیا , معرکہ ذات السلاسل میں دو سو مجاہدین پر امیر بنا کر بھیجے گئے تھے اور اس مہم میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی . چھوٹے چھوٹے  معرکوں میں بھیجنے کے بعد رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو کو عمان روانہ کیا وہاں پہنچ کر انہوں نے دو بھائیوں اور جیفر اور عبادجلدی جو کہ کئی عرصے سے وہاں کے حاکم تھے وہاں جا کر ان سے گفتگو شروع کردی , اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا دعوتی گرامی نامہ پہنچایا جس سے متاثر ہو کر انہوں نے اسلام قبول کرلیا _ عمان جانے کے بعد انہیں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ دیکھنا نصیب نہ ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی خبر انہیں عمان ہی میں ملی اور وہ اسے سن کر مدینہ واپس آگئے _  یہاں آئے ہوئے ابھی انہیں زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں فوج دے کر فلسطین بھیج دیا اس کاروائی میں انہوں نے نمایاں حصہ لیا . اسی طرح دریائے اردن کے مغربی علاقے کی تسخیر میں ان کا خاص حصہ تھا .

 غزوات میں شمولیت :

 آپ نے جنگ اجنادین , یرموک اور فتح دمشق میں شریک ہوئے  مگر ان کی اصل جوہر تو فتح مصر کی وجہ سے ہے . ہوا یوں کہ جب حضرت عمر شام تشریف لائے ہوئے تھے حضرت عمرو بن عاص ان سے تنہائی میں ملاقات کی اور کہا کہ انہیں مصر پر حملہ کرنے کی اجازت دی جائے حضرت  عمر نے اجازت دے دی , اور یمن کے چار ہزار مجاہدوں کو جن کا تعلق ایک ہی قبیلے سے تھا , ان کی کمان میں دے دیئے اور انہوں نے اسی وقت مجاہدین کو کوچ کرنے کا حکم دیا اور اپنی منزل کی راہ لی . مصر کی سرحد میں داخل ہو کر سب سے پہلے عریش اور اس کے بعد فرسا اور بلبس وغیرہ شہر فتح کیے , پھر مصر کے رومی سپہ سالار تھیوڈور سے سخت مقابلہ ہوا  جس میں بہت سے رومن کام آئے اور مسلمانوں کو فتح ہوئی 20 ھ بابل فتح کیا اور 21ھ میں خونریزہ جنگ کے بعد اسکندریہ ان کے زیر اقتدار آ گیا , ان کا کارنامہ صرف مصر کا فتح کرنا ہی نہیں تھا بلکہ انہوں نے اس کے نظام حکومت وقت محکمہ عدل و انصاف , ٹیکس لگانے کے قواعد و ضوابط بھی مقرر کیے , فسطاط کی بنیاد بھی انہوں نے رکھی , جس کا نام چوتھی صدی ہجری میں قاہرہ ہو گیا .

 حضرت عمرو نے دو سال مصر سے بڑا ملک فتح کر کے ثابت کر دکھایا کہ بہادری میری شجاعت و دلیری اور جنگ کی قیادت میں ان کی ایک خاص شان تھی , رومی مصر سے شکست کھا کر بھاگے تو مغربی افریقہ میں اپنی فوجوں کو اکٹھا کرنے لگے _ حضرت عمرو نے آگے بڑھ کر ان کی قوت کو ختم کرنا چاہتے تھے کہ وہ پھر کبھی مصر نہ لوٹ سکے پہلے برقع پر حملہ کیا تو وہاں کے باشندوں نے 13 ہزار دینار سالانہ جزیہ پر صلح کرلی اس کے بعد آپ طرابلس کی طرح بڑھے اور تین ماہ کی سخت جنگ کے بعد اس پر بھی قبضہ کر لیا . مصر میں انہوں نے مفتوح مصری باشندوں سے اتنا اچھا سلوک کیا کہ وہ اس سلوک سے متاثر ہو کر لاکھوں مصریوں نے اسلام قبول کرلیا .

اوصاف :

آپ اعلی درجے کے معتبر اور معزز تھے . بڑے متقی اور پرہیز گار بھی آپ شیریں بیان مقرر بھی تھے ادب اور شاعری سے بھی بڑی دلچسپی تھی آپ کے ان گند مشہور مقولوں میں سے ایک مقولہ یہ تھا کہ ” ہزار لائک آدمیوں کی موت سے اتنا نقصان نہیں پہنچتا جتنا کہ ایک نالائق آدمی کے صاحب اختیار ہو جانے سے پہنچ جاتا ہے . حضرت عمرو بن العاص بڑے خوش گفتار یار صاحب اور شیرازی بیان خطیب قادر الکلام دبر ‘ سیاست دان اور سپہ سالار تھے . رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سلم عسکری مہموں میں ان پر اعتماد فرماتے ان کی قدر کیا کرتے ہیں اور ان کے لئے اللہ تعالی سے رحم و کرم کی دعا کیا کرتے تھے .

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: عمرو بن العاص اس قریش کے نیک لوگوں میں سے ہے عمرو کے دونوں بیٹے یعنی عمرو اور ہشام مومن ہیں .

” عمرو ابن العاص ان کے بیٹے عبداللہ اور عمرو عبداللہ پر مشتمل خاندان کو بہترین گھرانہ قرار دیا ” _ ان سے آپ صلی اللہ وسلم کی انتالس احادیث بھی مروی ہیں .

وفات :

حضرت عمرو بن العاص نے 90 سال کی عمر میں 43 ھ میں مصر میں وفات پائی . وہاں سے پہلے اللہ تعالی سے دعا کی اور پھر تین مرتبہ کلمہ شریف لا الہ الا اللہ پڑھا اور جان جان آفریں کے سپرد کر دی .

اللہ تعالی اسلام کے اس عظیم سپہ سالار فاتح فلسطین و مصر و طرابلس جلیل القدر صحابی سے راضی ہو اور انکے کے نقشے قدم پر چلنے کی مسلمانوں کو توفیق نصیب ہو _ آمین .

Raja Arslan

0 thoughts on “حضرت عمرو بن العاص ؓ کی زندگی کا مختصر تعارف”

Leave a Comment