حضرت ہاشم بن عتبہ ؓ

 حضرت ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ کی زندگی کا مختصر خلاصہ

آپ عتبہ کے بیٹے ابو وقاص کے پوتے اور فاتح عراق حضرت سعد بن ابی وقاص کے بھتیجے ہیں ، آپکا تعلق قریش کی ایک شاخ بنو زہرہ سے تھا ۔ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے  ۔ غزوہ حنین میں پہلی بار حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کی قیادت میں ، کفار مکہ کے خلاف بڑی دلیری اور بہادری سے لڑے ۔ اسلام سے پہلے بھی اُنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے خلاف کبھی کسی کاروائی میں حصہ نہیں تھا لیا ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلّم کے والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اسی قبیلے بنو زہرہ سے تھی اور یوں بنو زہرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے ننیال تھے ۔ اسی طرح آپ کے چچا حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ، اولین اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلّم کے بہت ہی قریب تھے ۔ 
مرتدین کی سرکوبی کے سلسلہ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کمان میں اور پھر عراق اور شام کے محاذوں پر خوب خوب داد شجاعت دی ۔ جنگ یرموک میں حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے مہاجرین و انصار میں سے ایک سو ایسے بہادر منتحب کیے ، جو جنگ سے پہلے رومیوں کے حوصلے کو  تباہ و برباد کردیں ۔ ان میں سے ایک ہاشم بھی تھے ۔ اس جنگ میں پیادہ فوج کے ایک حصے کی کمان ان کے حصے میں آئی اور یہاں بھی بے مثال شجاعت کا ثبوت دیا ، اور بہت دلیری سے لڑتے رہے اور جنگ کے دوران ان کی آنکھ بھی شہید ہوگئی ۔ شام سے جو 6000 فوج حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے قادسیہ روانہ ہوئی ، آپ اس کے امیر تھے ۔ حضرت قعقاع کو البتہ ایک دستے کے ساتھ پہلے روانہ کر دیا تھا کہ وہ تیزی سے قادسیہ پہنچیں ۔  وہ جنگ کے دوسرے روز اور ہاشم تیسرے روز پہنچے ، اور یہ گروپوں کی شکل میں اسلامی فوجوں میں جا جا کر ملتے رہے اور نعرہ تکبیر بلند کرتے رہے ، اس سے اسلامی فوج کا حوصلہ اور بلند ہوتا اور دشمن کا حوصلہ ختم ہوتا گیا ۔ اور مجاہدین قادسیہ میں کوئی بھی ان کے کارناموں کو پہنچ نہ سکا ۔ اور فاتحین قادسیہ میں ان کا نام سر فہرست ہے ۔ 
مدائن کے بعد یزید گرد نے جلولاء میں تیاریاں شروع کیں ، اس کے مقابلے کے لیے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے حکم پر ہاشم کو 12000 فوج کے ساتھ بھیجا ، ہراول دستے میں سے ان کے ہمراہ حضرت قعقاع بھی تھے ۔ اس کا حکم بھی اُنہیں حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے ملا تھا ۔ حضرت ہاشم نے مدائن سے جلولاء کی طرف مارچ کیا اور دشمن کو جا لیا مگر وہ قلعہ بند ہوگئے ، مسلمان فوج نے 80 دن تک ان کا محاصرہ کیے رکھا ، حضرت ہاشم اور حضرت قعقاع کی ایک مشترکہ جنگی چال سے دشمن کھلے میدان نکل آئے ۔ حضرت ہاشم  نے اپنی سپاہ کو خطاب کرتے ہوئے کہا : اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر نہایت صبر و استقامت سے دشمنوں کا مقابلہ کرو ، فتح انشاء اللہ ہماری ہوگی ۔ بڑی سخت لڑائی کے بعد مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اور دشمن کا سخت جانی نقصان ہوا ۔ اس کے بعد خانفیں اور خلوان ب فتح کر لئے گئے ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مزید پیش قدمی کی اجازت طلب کی تو حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اُنہیں لکھا : کاش ہمارے اور عراق کے درمیان کوئی رکاوٹ ہوتی اور ہم ایک دوسرے تک نہ پہنچ سکتے ۔ ہمارے لئے عراق کا اتنا ہی حصہ کافی ہے ۔ مسلمانوں کی سلامتی مجھے مال و دولت سے کہیں عزیز ہے ۔فتوحات کے بعد ہاشم اپنے چچا حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے پاس کوفہ میں رہنے لگے اور فوجی و انتظامی امور میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے ۔ چچا کی معزولی کے بعد کوفہ کی ہروالی سے اخلاص و محبت سے پیش آتے رہے اور جو خدمت بھی سپرد ہوئی و سر انجام دی   اس طرح سب سے ہاں قابل قدر رہے   ۔ 
حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے وقت حضرت ہاشم رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کوفہ میں ہی تھے ۔ جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ اہلِ مدینہ نے حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے تو اُنھیں حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرنے پر ذرا بھی تردد نہ ہوا ۔ اور انہوں نے حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں جانے کی تاخیر بھی گوارا نہ کی  ۔ اور اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر کہا ! یہ علی کا ہاتھ ہے اور یہ میرا ؛ میں بیعت کرتا ہوں ۔ اس وقت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بھی ان کے ساتھ موجود تھے ۔ جنگ صفین ۳۷ ھ میں وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے پیادہ فوج کے قائد اور علم دار تھے اور انہیں کی قیادت میں لڑ رہے تھے اور یہی حضرت ہاشم رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ ایک ہی دن میں اللہ کو پیارے ہوگئے ، اور جام شہادت نوش فرمایا ۔ 

اوصاف : 

وہ بڑے سخی ، باوفا ، ہر دلعزیز ، ذہین اور مدبر تھے ۔ اُنہیں کمانڈ کی کبھی خواہش نہیں ہوئی ۔ کہ انہیں کمانڈ کا فریضہ سونپ دیا گیا ، پھر انہوں نے اُسے نہایت عمدگی سے انجام دیا ۔ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو اچھے نام اور اچھے کام کے علاوہ ان کا اور کوئی ذکر نہ تھا ۔ بحثیت قائد و جلد اور صحیح فیصلہ کیا کرتے ، اصحاب رائے سے مشورہ لیتے اور پھر اس پر عمل کیا کرتے تھے ۔ و نہایت مضبوط عزم کے مالک تھے ۔ اور وہ بہت دلیر اور بہادر تھی ۔ ماتحت عملے کے ساتھ انکا حُسنِ سلوک مثالی تھا ۔ اور وہ بھی ان پر جان چھڑکتے تھے ۔ ان کا ماضی شاندار اور بے داغ تھا ، اللّٰہ تعالٰی ان پاک باز و متقی سپہ سالار ، صحابی رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عظیم مجاہد سے راضی ہوں اور مسلمانوں کو اُن کی پیروی کی توفیق نصیب ہو۔ ( امین )
Raja Arslan

Leave a Comment