خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی قبل اسلام اور قبول اسلام کی زندگی

اسلام و علیکم دوستوں اُمید کرتا ہوں کہ آپ سب خريت سے ہوں گے۔ اور یہ بھی اُمید کرتا ہوں کہ میرا پچھلا آرٹیکل بھی آپکو پسند آیا ہوگا ۔ اور ابھی جو لکھ رہا ہوں وہ بھی ضرور پسند آے گا ۔ 

جیسا کہ میرے پچھلے آرٹیکل میں’ میں نے حضرت محمد ﷺ کے پیارے دوست حضرت ابو بکر کا ذکر کیا تھا یہ سب سے پہلے مرد تھے جنہوں نے حضرت محمد ﷺ پر جب پہلی وحی نازل کی گئی تو تو سب سے پہلے انہوں نے آپکی بات كو سچ مانا اور اسلام قبول کیا ۔  اور آپ ﷺ کا ہر موڑ پر ساتھ دیا۔۔ 

 : حضرت ابو بکر کا تعارف

آپ کی پیدائش حضرت محمد ﷺ سے 2 سال 6ماہ بعد ،  573 عیسوی میں مکّہ مکرمہ میں ہوئی ۔  آپ کا نام آپکے والد محترم نے عبدالکعبہ رکھا تھا کیونکہ  بعد روایات میں آتا ہے کے  آپکے والدین کے ہاں بیٹے زندہ نہیں رہتے تھے اس لیے اُنہوں نے یہ منّت مانی تھی کہ اگر  اب اُنکے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو وہ اُسکا نام عبدالکعبہ رکھے گئے اور اسے حانہ کعبہ کے لئے وقف کر دے گے ۔ اور جب آپ کی پیدائش ہوئی تو منّت کے مطابق آپکا نام عبدالکعبہ رکھا گیا ۔ اور پھر حضرت محمد ﷺ نے آپکا نام عبداللہ رکھا ۔ اور ابو بکر آپکی کنیت  ; صدّیق اور عتیق آپکے لقب ہیں۔  آپکے والد محترم کا نام ابو قحافہ عثمان اور آپکی والدہ کا نام  امّ الخیر سلمہ ہے اور آپکا تعلق  مکہ کے مشہور قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو تمیم سے ہے ۔ 

  :  اسلام سے پہلے  

آپ بچپن ہی سے اعتدال پاکباز اور بلند اخلاق کے مالک تھے
آپ نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں  و کفر و شرک فسق وفجور کا دور تھا خانہ کعبہ کے متوالی اور قریش قبیلہ بھی اور عرب قبیلوں کی کُفر اور شرک میں مبتلا تھے اور عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا اور عرب ایک ان پڑھ قوم تھے پر کچھ لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے ۔ اور حضرت ابو بکر اُن میں سے ایک تھے آپکے والد محترم نے آپکی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔ اس طرح نہ صرف آپ پڑھنا لکھنا جان گے بلکہ اور مشغل میں بھی آپ نے کافی مہارت حاصل کی ۔
 
قریش کی ساری قوم تجارت کا پیشہ کرتی تھی چناچہ جب آپ جوان ہوئے تو آپ نے بھی کپڑے کی تجارت کرنا شروع کر دی ، جس میں آپکو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا ۔ اور جلد ہی آپکا شمار مکّہ کے مشہور تاجروں میں ہونے لگا۔ تجارت میں جلد کامیابی کی اصل وجہ آپکی ایمانداری اور اعلیٰ احلاق تھا ۔ اور جب سیدنا  ابو بکر  کی عمر  18 برس تھی تو  آپ حضرت محمد ﷺ کے ہمراہ تجارت کے سلسلے میں ملک شام گے۔ اور ایک مقام پر بیری کے درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے  ۔ قریب ہی ایک اہل کتاب راہب رہتا تھا سیدنا ابوبکر صدیق اس کے پاس گے تو اُس نے پوچھا کہ یہ بیری کے درخت کے نیچے کون بیٹھا ہے تو آپ نے جواب دیا کہ یہ 
محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہے تو اس راہب نے کہا کہ واللہ یہ نبی ہیں اس درخت کے سائے میں مسیح کے بعد سوائے محمد نبی اللّٰہ کے علاوہ کوئی نہیں بیٹھا ۔ یہ بات آپکے دل پر جم گئی تو پھر اسی دن سے آپ نے حضرت محمد ﷺ کی محبت اور صحبت اختیار کر لی۔ ایک مرتبہ آپ کعبہ کے صحن میں کھڑے تھے اتنے میں امیہ بن ابی اصلت وہاں آیا اور آپ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا جس نبی کی آمد کا انتظار ہے وہ ہم (اہل طائف) میں معبوث ہوگایا تم (قریش) میں ؟ آپ نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں ۔ اس گفتگو کے بعد آپ اس بات کی تصدیق کے لیا ور قہ بن نوفل کے پاس گے۔ تو آپ نے  امیہ بن ابی اصلت کا مقولہ پیش کر کے ان کا خیال معلوم کرنا چاہا تو  ور قہ بن نوفل  نے کہا
ہاں جس نبی کی آمد کا انتظار ہے وہ عرب کے خاندان ہوگا اور چونکہ میں علم نسب کا بھی ماہر ہو اس بنا پر کہتا ہوں کہ وہ تمہارے اندر ہوگا ۔  ور قہ بن نوفل کی یہ بات سُن کر آپکی جُستجو اور بھر گئی ۔ 
آخر کار وہ وقت آگیا جسکا آپکو شدید انتظار تھا۔  وحی نازل ہونے کے بعد حضرت محمد ﷺ  نے جب آپ کو اسلام کی دعوت دی تو آپ نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔ 

 : اسلام قبول کرنے کے بعد 

اسلام قبول کرنے کے بعد جب حضرت محمد ﷺ نے اہل عرب اسلام کی دعوت دی تو کفار نے آپ ﷺ  کو اسلام کی تبلیغ دینے پر روکا۔ تو  آپؐ کو مدینہ سے ہجرت کرنا پڑی تو  ہجرت کے موقعہ پر حضرت ابو بکر  آپؐ کے ہمراہ تھے ۔ اور مشرکین مکہ سے بچنے کے لیے بھی غار ثور میں بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ اور آپؐ کے ساتھ ساتھ حضرت ابو بکر نے بھی اسلام کی دعوت دینا شروع کر دی ۔ آپ کی ہی اسلام کی دعوت سے حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت عثمان بن عفان ، حضرت عبید بن زید اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ فوراً ایمان لے آئے ۔ ابھی تک دعوت اسلام کو خفیہ رکھا گیا تھا، جب مسلمانوں کی تعداد انتالیس ہوگئی، تو حضرت ابو بکر کے اصرار پر آپؐ اپنے ساتھیوں کو لے کر بیت اللہ میں اسلام کی دعوت لیا تشریف لے گئے اور حضرت ابو بکر نے بیت اللہ میں  توحید و رسالت پر خطبہ دیا ۔ آپ نے ہر موڑ پر حضرت محمد ﷺ کا ساتھ دیا ۔ کبھی آپکو اکیلا نہی چھوڑا  ۔  آپؐ کے ساتھ اسلام  کی تبلیغ کو ہر طرف پہنچایا ، اور بہت سے کفار کو اسلام کی دعوت دی اور اسلام جیسے پیارے دین کے نور سے منور فرمایا ۔ اور بہت ساری جنگوں میں آپؐ  کے ہمراہ رہے ۔ اور آپؐ کی وفات کے بعد آپ کو خلافت کو سربراہ بنا گیا اور آپکے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کی۔ 

: غزوات میں شمولیت 

حضرت ابو بکر  نے حضرت محمد ﷺ کے ہمراہ بہت ساری غزوات میں شمولیت اختیار کی اور بہت ساری غزوات میں کامیابی بھی حاصل ہوئی ۔ آپ نے ان غزوات میں حصہ لیا ۔ 
غزوہِ بدر ، احد ، حمراء ، الاسد ، بنی النضیر ، بدر الموعد ، خندق ، بنی قریظہ ، حدیبیہ ، حیبر ، فتح مکہ ، حنین ، طائف غزوہِ تبوک اور بہت ساری غزوات لڑی ۔ 

  :  دورِ خلافت

دورِ خلافت اصل میں ایک طرز حکومت کا نام ہے جو اسلامی تعلیمات اور وحی الٰہی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے ۔ جناب حضرت محمد ﷺ سے قبل دنیا میں دو طرح کی حکومتیں رہی ہیں ۔ و حکومتیں جو طاقتور لوگوں نے حد قائم کی اور طاقت کے زور پر اُسے چلاتے رہے اور اسکا سب سے بڑا عنوان بادشاہت ہے اور دوسری یہ کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے اللہ کے قوانین اور احکام کو نافذ کرنے کے لئے حکومتیں قائم کیں جن میں حضرت یوسف علیہ السلام یوشع بن نون علیہ السلام ، حضرت داؤد علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام بنی اسرائیل کی حکومتوں کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے بخاری شریف کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں اقتدار  انبیاء کرام کے پاس ہوتا تھا ، ایک پیغمبر دنیا سے چلے جاتے تھے تو دوسرے آجاتے تھے ، لیکن میرے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے اب خلفاء ہو گئے جو اسلامی نظام چلے گے ۔ 
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں واضح طرز عمل اور اشارات کے باعث لوگ سمجھتے تھے کہ  حضرت ابو بکر ہے آپ کے جانشین ہوں گے مگر نامزد نھی فرمایا تھا ، جس کی حکمت یہ لکھی جاتی ہے کے اس طرح جانشین مقرر کرنا  تک کے لیے قانون بن جاتا اور امت کی رائے اور صوابدید کی نفی ہو  ہوجاتی ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مختلف مجالس کے عمومی بحث و تمحیص کے بعد حضرت ابوبکر کو اجتماعی طور پر خلیفہ چنا گیا ۔   
حضرت ابو بکر نے خلافت سنبھالنے کے بعد پہلے خطبہ میں چند باتیں واضح  پر فرما دی تھی کہ میں قرآن کریم اور سنت رسول کے مطابق نظام چلاو گا اور انکا پابند رہو گا۔ 
 پھر فرمایا کہ اگر اس سے ھٹ کر چلو تو لوگوں پر میری 
 واجب نہیں  اور اُنہیں احتساب کا حق حاصل ہوگا۔ گویا     
خلافت کا نظام قرآن و سنت کی پابندی اور عوام کے حق احتساب کے دو اصولوں پر استوار ہوتا ہے ۔ حضرت ابو بکر نے اپنے اڑھائی سال کے مختصر عرصے میں جو نمایاں کارنامے سرانجام دیئے ہیں انکے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد منکرین ختم نبوت ، منکرین زکوۃ اور مرتدین کے مختلف گروہوں نے بغاوت کر کے ہر طرف افراتفری کا ماحول پیدا کر دیا اور عالم اسباب میں نبی کریمﷺ  کی قائم کردہ ریاست خطرے میں پڑ گئی تھی۔ ان سب کا مقابلہ کر کے آپ نے اسلامی ریاست کو استحکام بخشا اور امت کے داخلی اتحاد کو قائم رکھا جو انکا سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔ 
حضرت محمد ﷺ کے دور میں قرآن مجید سینکڑوں حفاظ کو یاد تھا اور ہر لحاظ سے مکمل طور پر محفوظ تھا البتہ کتابی شکل میں موجود نہیں تھا ۔ حضرت عمر کی تحریک پر حضرت ابو بکر نے حضرت زید بن ثابت سے قرآن کریم تحریری صورت میں لکھوا کر مسجد نبوی میں رکھوا دیا جس سے قرآن کریم کتابی صورت میں بھی محفوظ ہوگیا اور اس میں کسی قسم تحریف اور ردوبدل کو دروازہ بھی بند ہوگیا ۔ 
رسول اکرم ﷺ نے بیت المال کا نظام قائم کیا تھا اُسے حضرت ابو بکر نے آگے بڑھایا اور بہت سارے ایسی بنیادی مراکز قائم کر دیا جو کہ رفاہی ریاست اور ویلفیئر اسٹیٹ  کا وہ نظام جو کے حضرت عمر کے دور میں منظّم ہو کے دنیا کے لیے ایک مثالی رفاہی نظام کی شکل اختیار کرگیا ۔ 

: حضرت ابو بکر کی وفات

آپ نے 7 جمادي الثانی سال 13 ہجری  بروز پیر کو ایک ٹھنڈے دن میں غسل کیا اور ٹھنڈ لگ جانے کی وجہ سے آپکو بخار ہوگیا اور 15 دن تک یہ بیماری رہی ، اور آپ کی جگہ حضرت عمر نماز پڑھاتے رہے ۔ اور پھر 22 جمادي الثانی کو 62 سال کی عمر میں منگل کی شام کو آپ اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے ۔ اور آپ نے 2سال 3 مہینہ 22 دن خلافت کی۔ 
آپکی وصیت کے مطابق اُنکے بیوی اسماء نے آپکو غسل دیا اور اسی رات کو حضرت عمر  نے مسجد نبوی میں آپکی نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت عائشہ کو کی گئی وصیت کے مطابق آپکو پیغمبر اسلام کے جوار میں مدفن کیا گیا ۔ 
http://petnutrica.com/
Raja Arslan

0 thoughts on “خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی قبل اسلام اور قبول اسلام کی زندگی”

Leave a Comment