خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ
خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ وہ اسلام کی عظیم شخصیت ہے جن کی اسلام کی روشن خدمات ، جرات و بہادری ، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں ، اور بہت سے فتوحات سے اسلام کا نام روشن کیا ۔
سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تاریخ اسلامی کا ایسا نام ہے جن کو صرف اپنے ہی نہیں بلکہ بیگانے بھی مانتے ہے قبول اسلام کے بعد اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے شیدائی بن کر آپ فاروق کہلائے ۔
تعارف
آپکی ولادت 583ء سنہ میں مکہ میں ہوئی ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نام عمر بن خطاب ، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے ۔اور آپکے لقب اور کنیت دونوں رسول اکرم ﷺ عطا کردہ ہیں ۔ اور آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب نویں پُشت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر ملتا ہے۔ عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ، آپ رضی اللہ عنہ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں اسلام کے نور سے منور ہوچکی تھی ۔ آپکے والد محترم کا نام الخطاب بن نفیل بن عبد العزی تھا ، اور آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حنتمہ بنت ہشام بن المغیرہ تھا ۔
حضرت عمرفاروق کا اسلام قبول کرنا
آپکی عمر 27سال تھی جب نبی کریم ﷺ نے قریش مکہ کو دین حق کی طرف بلایا اور یہ پرجوش نوجوان اسلام کا مخالف ہو گیا ان کی کنیز مشرف با اسلام ہوئیں تو عمربن خطاب نے ان پر بے پنا سختی کی جب وہ مار مار کر تھک جاتے تو کہتے ابھی تھوڑا سا سستا لوں پھر مارتا ہوں لیکن آپ کا یہ تشتدد اُس کنیز کے دل سے نور اسلام نہ نکال سکا تو یہ ارادہ کیا (نعوذ باللہ) آنخضرت ﷺ ختم کر دیا جائے تاکہ مذھب محفوظ ہو جائے لیکن قدرت کاملہ کو کچھ اور ہی منظور تھا عمر جب اس ارادہ سے گھر سے نکلے تو راستے میں نعیم بن عبداللہ ملے جو اسلام قبول کر چکے تھے انہوں نے عمر کے ہاتھ میں تلوار اور ماتھے پر تیور دیکھ کر ارادھ پوچھا تو جواب دیا ” محمد کا فیصلہ کرنے جا رہا ہوں” انہوں نے فورا کہاکہ” پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو تمہاری بہن اور تمہارے بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں ” غصے سے بہن کے گھر کی طرف لپکے اور دروازے کو اندر سے بند پایا اور قرآن پرھنےکی آواز سنی دروازہ کھلوایا اور بہنوئی کو پیٹنا شروع کر دیا بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر یہاں تک کےان کا لہولہان ہو گیا اسی حالت میں انکی زبان سے نکلا”عمر جو چاہو کرو اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا “بہن کے اس غیر متزلزل ارادے نے بھائی کو بالآخر سوچنے پر مجبور ہو کر کہا کہ آخر دکھاؤ تو وہ کیا چیز تھی جو تم پڑھ رہے تھے ؟
بہن نے قرآن پاک کے اوراق دکھائے فصیح و بلیغ کلام’غضب کے روز بیان اور پر زور استدلال نے بالآخر عمر کا دل فتح
کرلیا۔
جو کچھ آسمان و زمین میں ہے سب اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہے اور وہ غالب و حکیم ہے”
یہ آیت آپ کے دل میں اتر گئ اود آپکی بہن نے “ایمان لاو اللہ پر اور اسکے رسول ﷺ پر “پڑھا تو وہ بے اختیار کلمہ شہادت پکار اٹھے
حضرت عمر کو دعا مانگ کر لینا
خلافت عمر
خضرت عمر کا خلیفہ نامزد ہونے کے بعد کا خطاب
آپ منبر پر چڑھے اللہ تعالی کی حمد و ثناء بیان کی اس کے بعد فرمایا : اے لوگو! میں دعا مانگتا ہوں تم آمین کہو . اے اللہ میں سخت ہوں آپ مجھے اپنے اہل اطاعت کے لیےنرم فرما ، ان کے لیے جو تیری رضا کے لیے حق کی موافقت کرتے ہیں اور دارآخرت کی طلب کے لیے اور مجھے اپنے دشمنوں ، برائی کرنے والوں اور نفاق کرنے والوں کے لیے سخت بنا ۔ میں ان پر ظلم بھی نہ کروں اور نہ زیادتیاں ، اے اللہ! میں بخیل ہوں تو مجھے نیک کاموں کے لیے سخی بنا ، مجھےاعتدال عطا فرما میں نہ فضول خرچی کروں اور نہ ذیادہ خرچ کروں ، نہ ریا اور دکھلاوا کروں مجھے اپنی رضا طلب کرنے والا اور آخرت مانگنے والا بنا ۔ اے اللہ! مجھے مومنوں کے لیے نرم پہلو نرمی کا برتاؤ کرنے والا بنا ۔ اے اللہ ! میں بہت زیادہ غفلت کرنے والا اور بھولنے والا ہوں مجھے اپنا ذکر ہر حال میں الہام فرما اور ہر لمحہ مجھے موت یاد کرنے کی توفیق عطا فرما ۔
ازواج مطہرات اور اولاد
قریبہ بنت ابی امیہ ، ام کلثوم ملیکہ بنت جرول ، ذینب بنت مظعون ، جمیلہ بنت ثابت ، عاتکہ بنت زید ، ام حکیم بنت الحارث ، ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب ۔
سب سے پہلا نکاح زمانہ جاہلیت میں ذینب بنت مظعون بن حبیب سے کیا ، ان کے بطن سے عبدالرحمن اور حفصہ پیدا ہوئی ۔ زینب مکہ میں ایمان لائیں اور وہی وفات پائی، یہ عثمان بن مظعون کی بہن تھی ۔ دوسرا نکاح دور جاہلیت میں ملیکہ بنت جرول سے ہوا ان کے بطن سے عبداللہ پیدا ہوئے اور ۶ھ میں اُن کو طلاق دے دی۔ تیسرا نکاح قریبہ بنت ابی امیہ سے کیا اور مولانا زین العابدین کے مُطابق ام حکیم بنت الحارث سے کیا اور ان کو بھی طلاق دے دی ۔ چوتھا نکاح جمیلہ بنت ثابت سے کیا جن کے بطن سے عاصم پیدا ہوئے ، پانچواں نکاح ام کلثوم بنت علی سے چالیس ہہزار مہر سے کیا اور اُن کے بطن سے زید اور رقیہ پیدا ہوئے ، اور چھٹا قریبہ بنت ابی امیہ سے کیا ۔
اولاد
حضرت عمر کی اولاد یہ تھی زید اصغر ، زید اکبر ، عاصم ، عبداللہ ، عبدالرحمن اکبر ، عبدالرحمن اصغر , عبدالرحمن اوسط ، عبید اللہ عیاض ، حفصہ ، رقیہ ، زینب ، فاطمہ ۔
وفات
حضرت عمر فاروق ۲۷ ذوالحج ۲۳ ہجری کو صبح نماز فجر امامت کے دوران ابو لولو فیروز نامی مجوسی نے حضرت عمر رضی اللّٰہ علیہ عنہ کو ہنجر سے زخمی کر دیا جس کے تین روز بعد یکم محرم الحرام ۲۴ ہجری کو آپ نے جام شہادت نوش فرمايا ۔ آپ روضہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو مبارک میں مدفن ہے۔
Thanks for sharing
Fabulous ❤️.
Very informative…all the concepts are clear..keep up the good work