شاہ ولی اللہ کی زندگی

Table of Contents

شاہ ولی اللہ کی زندگی 

ولادت :

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی 21 فروری 1703 میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات سے چار سال قبل پیدا ہوئے ۔ یہ وہ زمانہ تھا ، جب سیاسی لحاظ سے اسلام روبہ تنزل تھا ، مگر مذہبی اور علمی طور پر اصلاح کا زمانہ بھی یہی تھا ۔ اسی وقت ہندوستان کا سب سے بڑا مصلح اور مبلغ پیدا ہوا ۔ 

سلسلہ نسب :

آپ کا سلسلہ نسب والد کی طرف سے خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ  سے اور والدہ کی جانب سے حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کاظم تک پہنچتا ہے ۔
شاہ صاحب کے دادا جان شیخ وجیہ الدین بھی اور صاحب قلم انسان تھے ۔ وہ اورنگزیب عالمگیر کے لشکر کے سردار تھے ۔ علاوہ ازیں شاہ صاحب کے والد گرامی کا شمار اس زمانے کے جید علماء کرام میں ہوتا تھا ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کی شخصیت پر تصوف کے نقوش ابھرتے دکھائی دیتے تھے ۔ 

ولادت کا دور :

یہ ایسا دور تھا جب ہر طرف جہالت کا دور دورہ تھا ۔ فسق و فجور اپنے عروج کی حدوں کو چھو رہا تھا ۔ اخلاقی اقدار انحطاط پزیر ہو چکا تھا ۔ سیاسی قوت روبہ تنزل تھی اور عدل و انصاف کا نام و نشان تک دکھائی نہ دیتا تھا امراء و سلاطین عیاشی و فحاشی میں مست تھے ۔
غریبوں اور یتیموں کا کوئی ہمنوا  نظر نہ آتا تھا ۔  حالات کا تقاضا تھا کہ کوئی درویش منش آدمی جو لوگوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے اور ان کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کرے اور ان حالات کے اندر اللّٰہ تعالٰی نے مسلمانوں کے اندر شاہ ولی اللہ کو پیدا کر کے ان کی اصلاح کی زمہ داری آپ کو سونپ دی ۔

ابتدائی تعلیم :

شاہ ولی اللہ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر سے حاصل کی ۔ اور پانچ سال کی عمر میں مکتب جانا شروع کیا ۔ اور  دو سال میں قرآن مجید پڑھ لیا اور ساتویں سال میں نماز و روزہ کی پابندی شروع کر دی ۔ پھر عربی کتابیں اور رسالے پڑھے ۔ دس سال کی عمر میں شرح جامی پڑھی ۔ اور پھر معقولات ختم کر کے منقولات تک جا پہنچے اور فقہ حدیث اور علم الکلام کے علاوہ طب ‘معانی’ ہندسہ اور ریاضی کی کتب سے تعلیم حاصل کی ۔ 

 شادی : 

چودہ سال کی عمر میں آپ کی شادی آپ  کے ماموں شیخ عبیداللہ کی صاحبزادی سے ہوئی ۔ ان سے ایک صاحبزادے شیخ محمد اور ایک صاحبزادی امتہ العزیز پیدا ہوئیں ۔ شادی کے ایک سال بعد آپ نے اپنے والد کے دست حق پرست پر بیعت کی اور انکی نگرانی اشغال صوفیہ میں مشغول ہوئے یہی وہ زمانہ تھا ، جس میں والد صاحب سے تفسیر بیضاوی کا درس لیتے تھے ۔

فریضہ حج:

پھر زیارت حرمین شریفین کا شوق دامن گیر ہوا اور 1143ھ میں فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے حرمین شریف روانہ ہو گئے ۔ اور حجاز میں تین سال قیام کیا اس قیام کے دوران انہوں نے شیخ الحدیث محمد افضل سیالکوٹی سے سند حدیث حاصل کی ۔ آپ نے مدینہ منورہ سے ابو طاہر محمد بن ابرہیم ست روایت حدیث کی سند حاصل کی ۔ وطن واپس آتے ہی شاہ صاحب نے اپنے استاد محترم سے ایک شعر سماعت کیا جس سے ان پر وجد طاری ہو گیا۔

تصنیفات:

آپ کی تصنیفات بےشمار ہیں بعض مورخین دو سو سے زائد بتاتے ہیں مصنف “حیات ولی” نے ان کی تعداد اکیاون بتائی ہے آپ کی چند مشہور اور متداول تصنیفات حسب ذیل ہیں :
1) فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن

2) فتح الخبیر بمالا یدمن حفظہ فی علم التفسیر
3) مصفے شرح موطا
4) مسوی شرح موطا
5) عقد الجید فی احکام الاجتھاد و التقلید
6)تاویل الاحادیث
7) حجتہ اللّٰہ البالغہ
8) الفوز الکبیر

وفات:

شاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوی 29 محرم الحرام 1176 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے_اس وقت انکی عمر اکسٹھ سال اور کچھ ماہ تھی ۔

Raja Arslan

Leave a Comment