نامور سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاصؓ

ؓنامور سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاص 

 :  نام و نسب 

آپ کا نام سعد اور کنیت ابو اسحاق ہے اور آپ سعد بن ابی وقاص کے نام سے مشہور ہے ، اور آپ کے سلسلہ نسب کی چند کڑیاں یہ ہیں ۔۔۔

سعد بن ابی وقاص مالک بن وہیب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مرۃ ہے ، اور آپ کی والدہ محترمہ کا نام حمنہ بنت سفیان بن امیہ بن عبد شمس ہے ۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کے چچا زاد بھائی ہیں ہیں ہیں کیونکہ حضرت آمنہ کے وہب ہے جو درس آزاد کے والد ابی وقاص اس کے بھائی ہیں ۔اس طرح آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عزیز داری کا شرف بھی حاصل ہے۔

 :  قبول اسلام 

آپ کی عمر سترہ سال تھی جب آپ کا دل ایمان کے نور سے منور ہوا ، آپ سے پہلے زید بن حارث , علی بن طالب اور حضرت ابو بکر صدیق اسلام قبول کرچکے تھے اس لحاظ سے آپ چوتھے مسلمان ہیں  ۔ حضرت سعد کہتے ہیں کہ اسلام لانے سے تین رات پہلے میں خواب میں دیکھتا ہوں کے میں انتہائی تاریکی میں کھڑا ہوں اور مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا اور دیکھتے ہی دیکھتے چاند روشن ہوتا ہے ، اور میں اس کی طرف چل پڑتا ہوں اور کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ مجھ سے پہلے اس چاند تک پہنچ گئے ہیں ہیں جن میں زید بن حارث ، علی ابن ابی طالب اور ابو بکر کو دیکھا ،میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا پہنچے ؟ تو انہوں نے جواب دیا ابھی ہی پہنچے ہیں ، پھر جب دیں نکلا تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو چپکے چپکے اسلام کی طرف بلا رہے ہیں تو پھر مجھے یقین ہو گیا اللہ پاک نے میرے ساتھ بھلائی کا ارادہ کر لیا ہے ، اور یہ چاہا ہے کہ اسلام کی دولت مجھے ظلمتوں سے نکال کر نور میں لاکر کھڑا کرے ، تو میں جلدی سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑا اور ان سے ملاقات کی اور اسلام لے آیا اور مجھ سے پہلے صرف یہی لوگ اسلام لاچکے تھے جنہیں میں نے خواب میں دیکھا تھا ۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدیم ترین اور محبوب اصحاب میں سے ہیں اور آپ ان دس عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جنہیں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں جنت کی خوشخبری دی تھی ۔آپ کے اسلام قبول کرنے پر آپ کی والدہ آپ پر بہت ناراض ہوئی اور قسم کھالی کہ جب تک تم اس دین سے پھر نہیں جاتے میں نہ کھاؤ گی نہ پیو گی یونیوب کی پیاسی مر جاؤں گی والدہ اپنی بات پر اڑ گئی اور کھانا پینا چھوڑ دیں دیا اور ان کی حالت نازک سے نازک تر ہوتے چلے گی مگر آپ کے قدم نہ ڈگمگائیں آپ پھر ان کی خدمت میں عرض کیا اگر آپ کی ایسی ہزار جانیں بھی ہوتی اور وہ سب ایک کر کے نکل جاتی تب بھی میں اسلام سے نہ پھرتا پھر وہ آپ کی اس بے مثال استقلال پر کھانے پینے لگے گئےاور قرآن پاک کی یہ آیت کریمہ آپ ہی کے بارے میں اتری ھے۔

 : ترجمہ 

اگر تیرے ماں باپ یہ کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تب تو اس وقت ان کا کہا نہ مان ‘ ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہ۔

:  غزوات میں شرکت

آپ نے بہت سی غزوات میں شرکت کی اور بڑی بہادری اور دلیری سے دشمن کا مقابلہ کیا. اسلام کے بعض سخت دشمن آپ کے ہاتھ سے اپنی سزا کو پہنچے , آپ کے بھائی عمیر نے بھی بہادری کے جوہر دکھائے اور غزوہ بدر میں شہادت کا رتبہ ملا۔

:  غزوہ احد

شوال 3 ھ  احد کی پہاڑی کے کنارے پر دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئی , اس میں مسلمانوں کی تعداد تعداد سات سو تھی جبکہ کفار کی تعداد تین ہزار مگر کفار مسلمانوں کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھر سکے اور بھاگ نکلے مسلمانوں کی ایک جماعت جو درہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کی تھی اور کسی بھی حالت میں اپنی جگہ چھوڑنے کی اجازت عزت نہ دی تھی , تو جب مسلمانوں نے کفار کو بھگایا تو یہ دیکھ کر انھیں یقین ہوا کہ ہم جنگ جیت چکے ہیں اور مال غنیمت کی طرف متوجہ ہوں گے اور صرف چند صحابہ  باقی رہ گئے . خالد بن ولید نے اس جگہ کو خالی دیکھ کر وہاں سے حملہ کردیا , جس سے مسلمانوں کو بہت زیادہ نقصان ہوا , کفار کا سارا زور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا صحابہ کرام بھی اکٹھے ہو کر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آ رہے تھے تاکہ ان کی حفاظت کر سکیں , جبکہ اوپر صرف 9 صحابی ان کے ساتھ رہ گئے جن میں سے سات انصاری اور دو قریشی تھے , یہ دو قریشی حضرت طلحہ اور حضرت سعد تھے . اس حالت میں کفار کا سارا زور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا,  یہ جانثار آہستہ آہستہ اپنی جان بھی قربان کرتے گے.  حضرت طلحہ اور حضرت سعد پیچھے رہ گئے , تو حضرت سعد کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ترکش رکھ دیا اور فرمایا

اے سعد !تیر پھینکو ! تجھ پر میرے ماں اور باپ قربان

حضرت طلحہ سپر لےکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو گئے اور تیر چلانے لگے اور اس شدت سے تیر اندازی کی 2, 3 کمانیں ٹوٹ  گی . اور اس صورت میں حضرت سعد پہاڑ کی طرح جمے رہے اوہ زبردست تیر اندازی کی . اسد الغابہ میں ہے کہ حضرت سعد نے اس دن 1000 تیر چلائے تھے جب آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھال بنے ہوئے تھے اتنے میں ایک بڑا جنگی کافر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آگیا , حضرت سعد نے ایک ہی تیر سے اس کا کام کر دیا . اس کافر کا کام ابھی تمام ہوا ہی تھا کہ ایک اور زبردست شخص طلحہ بن ابی طلحہ سامنے آگیا حضرت سعد نے اس کے حلق میں ایک ایسا تیر مارا کے اسکی زبان باہر نکل پڑیں اور تڑپ تڑپ کر جہنم پہنچ گیا۔

غزوہ احد کے بعد اور جتنے بھی غزوات ہوۓ حضرت سعد ان میں شریک رہے اور بڑی دلیری کے ساتھ دشمنوں سے لڑتے رہے  , یہاں تک کہ مکہ معظمہ فتح  ہوگیا , حنین کی مہم سر ہوگی , یہودیوں کے قلعے قبضے میں آگئے ,  اور عرب کے کونے کونے میں اسلام کا نور پھیل گیا. اسی طرح غزوہ تبوک اور رجب 9 ھ میں بھی آپ شریک تھے ۔

حضرت سعد کے بہادرانہ کارنامے تمام صحابہ کو پتا تھے , اس لئے حضرت عمر کے زمانہ میں جب ایرانیوں نے غرور سے مسلمانوں کو پوری قوت سے ایرانی شہنشاہ سے ٹکر لینے پر مجبور کیا . تو سپہ سالاری کے لئے سب کی نظریں انھی پر تھی , حضرت عمر نے سپاہ سالار کے لئے انہی کا انتخاب کیا اور اسلامی لشکر کی قیادت انکو سونپی اور مدینہ منورہ سے حضرت عمر نے حضرت سعد اور اسلامی لشکروں رخصت کیا اور کافی جدوجہد اور جنگ کے بعد مسلمانوں کو قادسیہ میں فتح حاصل ہوئی ۔

:  پیش قدمی

حضرت سعد فتح کے بعد دو مہینے تک قادسیہ میں ٹھہرے جب ان کی فوجی تازہ دم ہو گئی تو دربارہ خلافت کے حکم کے مطابق مدائن کے فتح کے ارادے سے آگے بڑھے زہرہ بن معاویہ کی سرکردگی میں آپ نے کچھ فوج آگے روانہ کر دی تھی مقام برس میں زہرا کا ہرمز سے مقابلہ ہوا اور اسے شکست دی اور وہ بابل کی طرف بھاگ گیا . حضرت سعد اپنی فوج کے ساتھ فرات کو پار کر کے بابل پہنچے . یہاں سے بہت سے ایرانی سردار فیروز , ہرمز , مہران اور مہرجان وغیرہ اپنی فوجوں کے ساتھ پڑے تھے لیکن مسلسل شکستوں سے کچھ عرصے سے مرعوب ہو گئے تھے یہ مقابلہ میں ٹھہر نہ سکے اور پہلے ہی حملے میں بھاگ کھڑے ہوئے حضرت سعد نے بہرہ شیر کا رخ کیا , اور دو ماہ کے محاصرہ کے بعد ایک دن محصورین نے قلعہ سے باہر نکل کر مقابلہ کیا لیکن میدان چھوڑکر بھاگ نکلے اور حضرت ابو سعد دریا کو پارکر کے مداہن میں داخل ہوگے۔ 

آخر میں آپ نے وادی عتیق میں رہائش اختیار کرلی تھی جہاں اب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ہے عشرہ مبشرہ میں سب سے آخر میں 55ھ میں آپ کا وصال ہوا اور آپ کو جنت البقیع میں مدفن کیا گیا۔

Raja Arslan

5 thoughts on “نامور سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاصؓ”

Leave a Comment